Fatwa

Slaughtering an animal for the ill

Fatwa #383 Category: Miscellaneous Country: Zambia Date: 5th March 2020
Fatwa #383 Date: 5th March 2020
Category: Miscellaneous
Country: Zambia

Question

Kisi bimar ke liye bakre ka sadakah karna kesa he

Is liye ke kuch log kehte he ke jaan ke badle me jaan ka sadakah nahi de sakte

 

Translation:

What is the ruling of slaughtering a goat for one who is ill.

Because some people say that one cannot slaughter a live animal in return for another live being.

Answer

In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful.
As-salāmu ‘alaykum wa-rahmatullāhi wa-barakātuh.

Sadaqah alleviates and dispels difficulties. [1]

This is understood from the following Hadeeth:

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ إِنَّ الصَّدَقَةَ لَتُطْفِئُ غَضَبَ الرَّبِّ وَتَدْفَعُ مِيتَةَ السُّوءِ ‏”‏

Translation:

Nabi said: “Indeed charity extinguishes Allah’s anger and it protects against evil.”

(Jaami Al-Tirmidhi)

The purpose of Sadaqah is to fulfil the needs of the poor and needy people by giving charity. This can be achieved in numerous ways. It is not necessary to slaughter an animal for Sadaqah purposes. If an animal is slaughtered for a person who is ill, with the intention that the slaughtering of the animal will alleviate the sickness or that the cure of the person is suspended on the slaughter, then this will be Haraam and prohibited. It is not permissible to slaughter a live animal in exchange of a live being. Accordingly, it will not be permissible to slaughter and consume such animals when the intention of Sadaqah is focussed on the slaughtering of an animal.[2] This intention becomes evident when a person becomes insistent on slaughtering an animal and is not prepared to substitute the animal with another form of Sadaqah.

If the animal is slaughtered and distributed to the poor and needy on a general basis, without any such belief but rather just to alleviate the difficulty, then this would be permissible. [3] However, then too, if the purpose is to feed the poor, then meat should be bought and distributed to the poor and needy as Sadaqah or alternatively the value of the animal can be discharged as Sadaqah. This would be the preferred method rather than slaughtering an animal.

 

And Allah Ta’āla Knows Best

 

Mufti Muhammad I.V Patel

 

Checked and Approved by
Mufti Nabeel Valli

Darul Iftaa Mahmudiyyah
Lusaka, Zambia

daruliftaazambia.com

[1]

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (4/ 1341)

 (وَعَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: ” «إِنَّ الصَّدَقَةَ لَتُطْفِئُ غَضَبَ الرَّبِّ وَتَدْفَعُ مِيتَةَ السَّوْءِ» ) أَيْ لَتَمْنَعُ مَوْتَةَ فَقُلِبَتْ وَاوُهَا يَاءً لِسُكُونِهَا وَانْكِسَارِ مَا قَبْلَهَا، وَهِيَ الْحَالَةُ الَّتِي يَكُونُ عَلَيْهَا الْإِنْسَانُ فِي الْمَوْتِ، وَالسَّوْءُ بِفَتْحِ السِّينِ وَيُضَمُّ، وَالْمُرَادُ مَا لَا تُؤْمَنُ غَائِلَتُهُ وَلَا تُحْمَدُ عَاقِبَتُهُ كَالْفَقْرِ الْمُدْقِعِ وَالْوَصَبِ الْمُوجِعِ وَالْأَغْلَالِ الَّتِي تُفْضِي بِهِ إِلَى كُفْرَانِ النِّعْمَةِ وَنِسْيَانِ الذِّكْرِ، وَقِيلَ: مَوْتُ الْفَجْأَةِ وَالْحَرْقِ وَالْغَرَقِ وَالتَّرَدِّي وَالْهَدْمِ وَنَحْوِ ذَلِكَ، وَفِي حَاشِيَةِ مِيرَكَ قَالَ الشَّارِحُ الْأَوَّلُ: الْمُرَادُ بِالْمِيتَةِ السَّوْءِ الْحَالَةُ الَّتِي يَكُونُ عَلَيْهَا عِنْدَ الْمَوْتِ كَالْفَقْرِ الْمُدْقِعِ وَالْوَصَبِ الْمُوجِعِ وَالْأَلَمِ – الْمُرَادُ الْمُفْلِقُ – وَالْأَغْلَالِ الَّتِي تُفْضِي إِلَى كُفْرَانِ النِّعْمَةِ وَالْأَهْوَالِ الَّتِي تَشْغَلُهُ عَمَّا لَهُ وَعَلَيْهِ، وَمَوْتِ الْفَجْأَةِ الَّتِي هُوَ أَخْذَةُ الْآسِفِ وَنَحْوِهَا، وَقَالَ الطِّيبِيُّ نَقْلًا عَنِ الْمُظْهِرِ: أَرَادَ بِهِ مَا تَعَوَّذَ مِنْهَا رَسُولُ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – فِي دُعَائِهِ ” «اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْهَدْمِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ التَّرَدِّي وَمِنَ الْغَرَقِ وَالْحَرْقِ وَالْهَرَمِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ أَنْ يَتَخَبَّطَنِي الشَّيْطَانُ عِنْدَ الْمَوْتِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ أَنْ أَمُوتَ فِي سَبِيلِكَ مُدْبِرًا، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ أَنْ أَمُوتَ لَدِيغًا» ” ثُمَّ قَالَ: وَيَجُوزُ أَنْ يُحْمَلَ إِطْفَاءُ الْغَضَبِ عَلَى الْمَنْعِ مِنْ إِنْزَالِ الْمَكْرُوهِ فِي الدُّنْيَا، كَمَا وَرَدَ: لَا يَرُدُّ الْقَضَاءَ إِلَّا الصَّدَقَةُ، وَمَوْتُ السَّوْءِ عَلَى سُوءِ الْخَاتِمَةِ وَوَخَامَةِ الْعَاقِبَةِ مِنَ الْعَذَابِ فِي الْآخِرَةِ، كَمَا وَرَدَ: الصَّدَقَةُ تُطْفِئُ الْخَطِيئَةَ، وَقَدْ سَبَقَ أَنَّهُ مِنْ بَابِ إِطْلَاقِ السَّبَبِ عَلَى الْمُسَبَّبِ، وَقَدْ تَقَرَّرَ أَنَّ نَفْيَ الْمَكْرُوهِ لِإِثْبَاتِ ضِدِّهِ أَبْلَغُ مِنَ الْعَكْسِ، فَكَأَنَّهُ نَفَى الْغَضَبَ وَأَرَادَ الرِّضَا وَنَفَى الْمِيتَةَ السَّوْءَ وَأَرَادَ الْحَيَاةَ الطَّيِّبَةَ فِي الدُّنْيَا وَالْجَزَاءَ الْحَسَنَ فِي الْعُقْبَى، وَعَلَيْهِ قَوْلُهُ – تَعَالَى 

{فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ} [النحل: 97] (رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ)

 

لمعات التنقيح في شرح مشكاة المصابيح (4/ 359)

(أنس) قوله: (أن الصدقة لتطفيء غضب الرب) [في] الحديث إشارة إلى حصول العافية في الدين والدنيا، و (ميتة) بكسر الميم وسكون الياء، أصله موتة مصدر للنوع كالجلسة، أبدلت واوه ياء لسكونها وكسر ما قبلها، والمراد بـ (ميتة السوء) الحالة السيئة التي يكون عليها عند الموت مما يؤدي إلى كفران النعمة من الآلام والأوجاع المفضية إلى الجزع والفزع أو الغفلة عن ذكر اللَّه، ومنها موت الفجاءة وسائر ما يشغله عن اللَّه مما يؤدي إلى سوء الخاتمة ووخامة العاقبة، نعوذ باللَّه منها

 

 

[2]

امداد الفتاویٰ جدید جلد ١١ صفحہ ٤٤٦

چونکہ مقصود فدا ہوتا ہے اور ذبح کی یہ غرض صرف عقیقہ میں ثابت ہے اور جگہ نہیں اس لئے یہ طریقہ بدعت ہے

 

اگر چہ اس عادت کا خیر القرون میں ہونا نظر سے نہیں گزرا مگر شریعت کے قواعد کلیہ کو مدِ نظر رکھتے ہوئے یہ چیز فی نفسہ مباح اور جائز ہے؛ مگر چند عوارض کی بنا پر اس کے بدعت ہونے کا فتویٰ دینا میرا معمول ہے اور وہ عوارض یہ ہیں کہ اکثر لوگ اس عمل کو کرتے وقت نفس صدقہ کو مقصود اور نفع بخش نہیں سمجھتے بلکہ خاص ذبح کرنے اور خون بہانے کو مریض کا فدیہ گمان کرتے ہیں اور یہ بالکل نامعقول بات ہے اور ایسا کرنے کے لیے نص کا ہونا ضروری ہے، اور نص ہے نہیں، اور ایسا اعتقاد رکھنے کی دلیل یہ ہے کہ یہ لوگ اس جانور کی قیمت کے برابر روپیہ صدقہ کرنے پر کبھی راضی نہیں ہوتے۔

 

اشرف الاحکام صفحہ ٧

فرمایابیمار کیلئے بکرا ذبح کرنا اس میں فساد عقیدہ کا شبہ ہے کیونکہ مقصود اراقۃالدم ہوتا ہے جوکہ فدیہ ہے اور اگر صدقہ کی تاویل کی جائے تواتنا گوشت یا غلہ دینے سے کیو ں تسلی نہیں ہوتی

 

کتاب النوازل جلد ١٤ صفحہ ٤٨٢

اگر بیماری کے وقت جان کا بدلہ جان سمجھ کر ذبح کرکے بکرا بھیجا گیا ہے، تو یہ بکرا کسی کے لئے حلال نہیں، مردار کے حکم میں ہے

 

فتاویٰ قاسمیہ جلد ١١ صفحہ ٣٨٣

اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے، کہ بیماری اور دفع بلاء کیلئے جو جانور ذبح کرتے ہیں، تو ذبح کرنے والے اسی جانور ذبح کرنے اور خون بہانے ہی کو دفع بلاء کا ذریعہ سمجھتے ہیں،اگر یہی سمجھ کر جانور ذبح کرتے ہیں، تو اس جانور کا گوشت فقیروں کیلئے بھی کھانا درست نہیں ہے، اسی کی طرف حضرت تھانویؒ نے امدادالفتاویٰ میں اشارہ فرمایا ہے

 

[3]

فتاویٰ قاسمیہ جلد  ١١ صفحہ ٣٨٤

اور فتاویٰ دارالعلوم میں جو جائز لکھا ہے وہ اس کیلئے جو دفع بلاء کی غرض سے کھانا کھلانا چاہتاہے، اور اس میں جانور ذبح کرنے کو ضروری نہیں سمجھتا اور جانور ذبح کرنے ہی کو دفع بلا کا ذریعہ نہیں سمجھتا بلکہ وہ بلا تکلف بازار سے گوشت لاکر فقیروں کو دینے کو اور روپیہ دینے کو برابر سمجھتاہے،دونوں فتاویٰ کے درمیان تطبیق کی شکل یہی ہے۔